156049_10152647422410334_7110295986345889328_n.jpg (685×176)

امیرالمومنین، امام المجاہدین، غیظ المنافقین سیدنا و مولانا عمر بن خطاب فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ علم و عمل، تقوی و طہارت، عدل و انصاف، شان و عظمت اور تعلق و نسبت میں اپنی مثال آپ ہیں- آپ کی سیرت طیبہ کا ایک حسین واقعہ سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے قلم حقیقت رقم سے!

 

ابن عساکر تاریخ میں اسلم مولٰی (یعنی غلام) امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک رات مدینہ طیبہ کا طواف (شہر میں گشت) کر رہے تھے دیکھا کہ ایک بی بی اپنے گھر میں بیٹھی ہیں اور ان کے بچے ان کے گرد رو رہے ہیں اور چولہے پر ایک دیگچی چڑھی ہے۔ امیر المومنین قریب گئے اور فرمایا اے اللہ کی باندی! یہ بچے کیوں رو رہے ہیں؟ انھوں نے عرض کی: یہ بھوکے روتے ہیں۔ فرمایا: تو اس دیگچی میں کیا ہے؟ کہا میں نے ان کے بہلانے کو پانی بھر کر چڑھا دی ہے کہ وہ سمجھیں اس میں کچھ پک رہا ہے۔ اور انتظار میں سوجائیں۔ 

 

امیر المومنین فورا واپس آئے اور ایک بڑی بوری میں آٹا اور گھی اور چربی اور چھوہارے اور کپڑے اور روپے (بوری کے) منہ تک بھرے پھر اپنے غلام اسلم سے فرمایا: یہ میری پیٹھ پر لاد دو۔ اسلم کہتے ہیں میں نے عرض کی: یا امیر المومنین! میں اٹھا کر لے چلوں گا۔ فرمایا: اے اسلم! بلکہ میں اٹھا ؤں گا کہ اس کا سوال تو آخرت میں مجھ سے ہونا ہے (کیونکہ رعایہ آپ کی تهی) پھر اپنی پشت مبارک پر اٹھا کر ان بی بی کے گھر تک لے گئے پھر دیگچی میں آٹا اور چربی اور چھوہارے چڑھا کر اپنے دست مبارک سے پکاتے رہے پھر پکا کر انھیں کھلایا کہ سب کا پیٹ بھر گیا۔ پھر باہر صحن میں نکل کر ان بچوں کے سامنے (بلا تشبیہہ) ایسے بیٹھے جیسے (بچوں کو خوش کرنے کیلئے گهروں میں بڑے افراد سواری بن جاتے ہیں اور کہتے ہیں چل میں تیرا گهوڑا بن گیا وغیرہ) جانور بیٹھتا ہے اور میں (حضرت اسلم) ہیبت کے سبب بات نہ کرسکا۔ امیر المومنین یوں ہی بیٹھے رہے یہاں تک کہ بچے اس نئی نشست کو دیکھ کر امیر المومنین کے ساتھ کھیلنے اور ہنسنے لگے۔ 

 

اب امیرالمومنین واپس تشریف لائے اور فرمایا: اسلم! تم نے جانا کہ میں ان کے ساتھ یوں کیوں بیٹھا؟ میں نے عرض کی: نہ۔ فرمایا: میں نے انھیں روتے دیکھا تھا تو مجھے پسند نہ آیا کہ میں انھیں چھوڑ کر چلا جاؤں جب تک انھیں ہنسا نہ لوں، جب وہ ہنس لئے تو میرا دل شاد ہوا۔ (فتاوی رضویہ، جلد ۲۲، صفحہ ۳۸۹)

 

میرے مالک! آج روئے زمین پر کتنی آنکھیں نم ہیں، برما، کشمیر، فلسطین، شام الغرض کہاں کہاں آہ و بکا ہے مگر کوئی مسلمان حاکم نظر نہیں آتا جو ان روتی آنکهوں والے چہروں پر مسکراہٹ لائے... کرم بطفیل فاروق اعظم کرم!!

 

— — —

علامہ محمد حامد سرفراز قادری رضوی