حضرت شیخ الاسلام غوث بہاؤ الحق و الدین
سیدنا زکریا ملتانی سُہروردی علیہ الرحمة



خاندانی حالات و علم و فضل

حضرت مخدوم شیخ بہاﺅالدین زکریا ملتانی رحمة اللہ علیہ خاندان سہروردیہ کے بڑے بزرگ اور عارف کامل گزرے ہیں۔ حافظ‘ قاری‘ محدث‘ مفسر‘ عالم‘ فاضل‘ عارف‘ ولی سب کچھ تھے‘ ۔ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمة اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ ہندوستان کے اندر آپ ولیوں میں باز سفید کے نام سے مشہور تھے۔ حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمة اللہ علیہ ساتویں صدی ہجری کے مجدددین میں شمار کئے جاتے ہیں آپ ظاہری و باطنی علوم میں یکتائے روزگار تھے ، اسلام کے عظیم مبلغ تھے. آپ کے جد امجد مکہ معظمہ سے پہلے خوارزم آئے ، پھر ملتان میں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ یہیں پیدا ہوئے۔ آپ رحمة اللہ علیہ نسبتاً قریشی ہیں۔ آپ 578ھ میں پیدا ہوئے۔ یہ عہد خسرو ملک غزنوی کا عہد تھا۔ آپ کی ولادت ملتان سے قریب ایک علاقے کوٹ کہرور ضلع لیّہ میں ٢٧ رمضان المبارک شب جمعہ کو ہوئی۔ آپ کی والدہ نے رمضان کے دنوں میں آپ کو ہر چند دودھ پلانا چاہا مگر آپ نے نہ پیا جو آپ کی کرامت ہے۔ بارہ سال کی عمر تک آپ رحمة اللہ علیہ ملتان میں ہی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ رحمة اللہ علیہ خراسان تشریف لے گئے۔ اسی عمر میں آپ رحمة اللہ علیہ حافظ و قاری ہو گئے تھے۔

 

والد گرامی کے انتقال کے بعد آپ رحمة اللہ علیہ نے محض حصول علم و فن کیلئے پیادہ پا خراسان کا سفر کیا۔ اس کے بعد بلخ بخارا و بغداد اور مدینہ منورہ کے شہرہ آفاق مدارس میں رہ کر سند فضیلت حاصل کی۔ پانچ سال تک مدینہ منورہ ہی میں رہے جہاں حدیث پڑھی بھی اور پڑھائی بھی۔ غرض پندرہ سال اسلام کے مشہور مدارس و جامعات میں رہ کر مقعولات اور منقولات کی تکمیل کی۔ مدینہ منورہ ہی میں حضرت کمال الدین محمد یمنی محدث رحمة اللہ علیہ سے احادیث کی تصحیح کرتے رہے۔ جب پورا تجربہ حاصل ہو گیا تو آپ رحمة اللہ علیہ مکہ معظمہ میں حاضر ہوئے اور یہاںسے بیت المقدس پہنچ کر انبیاءکرام علیہم السلام کے مزارات کی زیارات کیں۔ اس عرصہ میں نا صرف یہ کہ آپ علوم ظاہر کی تکمیل میں مصروف رہے بلکہ بڑے بڑے بزرگان دین اور کاملین علوم باطنی کی صحبتوں سے بھی فیض یاب ہوئے۔ بڑے بڑے مشائخ سے ملے۔ فیوض باطنی حاصل کئے اور پاکبازانہ و متقیانہ زندگی بسر کرتے رہے۔ جس وقت آپ بغداد شریف وارد ہوئے تو ایک جید عالم تھے۔

١٥ سال کی عمر میں حفظِ قرآن ، حسنِ قرأت، علومِ عقلیہ و نقلیہ اور ظاہری و باطنی علوم سے بھی مرصع ہوگئے تھے ۔ آپ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ قرآن مجید کی ساتوں قرأت (سبعہ قرأت) پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ آپ نے حصول علم کیلئے خراسان ، بخارا ، یمن، مدینة المنورة ، مکة المکرمة ، حلب، دمشق، بغداد، بصرہ، فلسطین اور موصل کے سفر کر کے مختلف ماہرین علومِ شرعیہ سے اکتساب کیا۔ شیخ طریقت کی تلاش میں آپ ، اپنے زمانہ کے معاصرین حضرت ِ خواجہ فرید الدین مسعود گنجِ شکر، حضرت سید جلال الدین شاہ بخاری (مخدوم جہانیاں جہاں گشت) اور حضرت سید عثمان لعل شاہباز قلندر رحمہم اللہ کے ساتھ سفر کرتے رہے۔

 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خرقہ خلافت دلایا

بیت المقدس سے مختلف بلاد مشائخ اور مزارات کی زیارت کرتے ہوئے مدینة العلم بغداد میں آئے تو اس وقت حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمة اللہ علیہ کا طوطی بول رہا تھا۔ ان کی ذات گرامی مرجع خلائق بنی ہوئی تھے۔ بڑا دربار تھا ‘ بڑا تقدس ۔ آپ رحمة اللہ علیہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھتے ہی فرمایا باز سفید آ گیا۔ جو میرے سلسلہ کا آفتاب ہو گا اور جس سے میرا سلسلہ بیعت وسعت پذیر ہوگا۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے ادب سے گردن جھکائی۔ شیخ رحمة اللہ علیہ نے اسی روز حلقہ ارادت میں لے لیا اور تمام توجہات آپ کی طرف مرکوز تھیں۔ صرف سترہ روز بعد درجہ ولایت کو پہنچا کر باطنی دولت سے مالا مال اور خرقہ خلافت عطا کر کے رخصت کر دیا۔

خانقاہ شیخ الشیوخ تو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی روحانی یونیورسٹی تھی جس میں ہر وقت اور ہمیشہ درویشوں اور طریقت والوں کا ہجوم رہتا تھا۔ اس وقت اور بھی بہت سے بزرگ ان کی خدمت میں موجود تھے۔ جو مدت سے خرقہ خلافت کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے جو دیکھا کہ مخدو م بہاﺅالدین رحمة اللہ علیہ کو آتے ہی خلافت بھی مل گئی اورہم تو برسوں سے خدمت کر رہے ہیں‘ اب تک یہ مرتبہ حاصل نہ ہوا اور یہ نوجوان چند روز ہی میں کمال کو پہنچ گیا۔ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمة اللہ علیہ نے الحمد للہ نور باطن سے معلوم کر کے فرمایا کہ تم بہاﺅ الدین رحمة اللہ علیہ کی حالت پر کیا رشک کرتے ہو وہ تو چوبِ خشک تھا جسے فوراً آگ لگ گئی اور بھڑک اٹھی۔ تم چوبِ تَر کی مانند ہو جو سلگ سلگ کر جل رہی ہے اور جلتے جلتے ہی جلے گی۔ پھر سب لوگ سمجھ گئے کہ یہ تمام امور‘ فضل الٰہی پر منحصر ہیں۔

 

سترھویں شب ہی کو مخدوم صاحب نے خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا آراستہ مکان ہے جو انوار تجلیات سے جگمگا رہا ہے ‘ درمیان میں تخت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروز ہیں۔ دائیں جانب حضرت شیخ الشیوخ دست بستہ مودب کھڑے ہیں اور قریب ہی چند خرقے آویزاں ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخدوم صاحب کو سامنے بلایا اور ہاتھ پکڑ کر اسے حضرت شیخ الشیوخ کے ہاتھ میں دے دیا اور فرمایا کہ میں اسے تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ ان خرقوں میں سے ایک خرقہ بہاﺅالدین کو پہنا دو۔ چنانچہ انہوںنے تعمیل حکم کے طور پر آپ کو ایک خرقہ پہنا دیا۔

صبح ہوتی ہے حضرت شیخ الشیوخ نے آپ کو بلایا اور فرمایا کہ رات کو جو خرقہ عطا ہوا ہے وہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ آپ نے وہ خرقہ پہنایا اور حکم دیا کہ اب ملتان پہنچ کر ہدایت خلق میں مصروف ہو جاﺅ ۔ یہ تھا حضرت مخدوم صاحب کا مرتبہ کہ ستر ہ روز میں خلافت ملی ‘ حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی‘ سب کچھ دکھا کر ملی ‘ گویا آپ کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملتان میں پنجاب ‘ سندھ اور سرحد میں روشنی پھیلانے کیلئے متعین کیا تھا۔ شیخ کے حکم پر آپ ہندوستان کے علاقہ ملتان میں تبلیغِ دین میں مصروف ہوئے ۔ آپ کے ذریعے ہزاروں ہندو ،مسلمان ہوئے جبکہ لاکھوں مسلمان راہ یاب اور کامیاب ہوئے۔ آپ کے ملفوظات اور مکتوبات طبع ہوچکے ہیں ، جن میں سے یہ ایک جملہ مکمل اسلامی زندگی کا احاطہ کرتا ہے ۔

'' جسم کی سلامتی کم کھانے میں ، روح کی سلامتی گناہوں کے ترک میں اور دین کی سلامتی نبی کریم صاحبِ لولاک علیہ الصلوٰة والسلام پر درود بھیجنے میں ہے ۔''

 

دار الاسلام ملتان کا سہروردی مدرسہ

ملتان دارالسلام تھا۔ اتنے عرصہ میں فضا اور بدل چکی تھی۔ حالانکہ آپ یہیں کے رہنے والے تھے مگر پھر بھی چونکہ آپ صاحب ولایت اور بااقتدار اور باکمال ہو کر آرہے تھے اس لئے مشائخین ملتان کو آپ کا ملتان آنا ناگوار گزرا۔ انہوں نے دودھ کا پیالہ آپ کے پاس بھیجا جس کا مقصد یہ اشارہ تھا کہ یہاں کا میدان پہلے ہی سرسبز ہے اور ملتان میں آپ کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ آپ نے اشارہ سمجھ کر دودھ کے بھرے پیالے میں ایک گلاب کاپھول ڈال کر بھیج دیا۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ گو کہ یہ پیالہ لبالب ہے، یہاں جگہ نہیں مگر میں مثل اس پھول کے یہاں رہوں گا اور میرے رہنے سے نہ کسی کی جگہ پر اثر پڑے گا نہ کسی پر بار رہوں گا۔ آپ 614ھ میں ملتان پہنچے اس وقت آپ کی عمر 36‘37 برس کی تھی۔ آپ نے ملتان پہنچ کر ملتان کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اس کی شہرت کو ہمدوش ثریا بنا دیا۔ آپ نے عظیم الشان مدرسہ رفیع المنزلت خانقاہ و عریض لنگر خانہ ‘ پر شکوہ مجلس خانہ اور خوبصورت عالی شان سرائیں اور مساجد تعمیر کرائیں۔

اس وقت ملتان کا مدرسہ ہندوستان کی مرکزی اسلامی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا جس میں جملہ علوم منقول کی تعلیم ہوتی تھی ۔ بڑے بڑے لائق اور وحید العصر معلم پروفیسر اس میں فقہ و حدیث، تفسیر قرآن ‘ ادب‘ فلسفہ و منطق ریاضی و ہیت کی تعلیم دیتے تھے۔نہ صرف ہندوستان بلکہ بلاد ایشیاءعراق شام تک کے طلباءاس مدرسہ میں زیر تعلیم تھے۔ طلباءکی ایسی کثرت تھی کہ ہندوستان میں اس کی کوئی نظیر نہیں تھی۔ لنگر خانہ سے دونوں وقت کھانا ملتا تھا ۔ ان کے قیام کیلئے سینکڑوں حجرے بنے ہوئے تھے۔ اس جامعہ اسلامیہ نے ایشیا کے بڑے بڑے نامور علماءو فضلا پیدا کئے ‘ ملتان کی علمی و لٹریری شہرت کو فلک الافلاک تک پہنچا دیا۔

 
سیاسیات پر گہر اثر و رسوخ

حضرت صاحب علیہ الرحمة کا قرونِ وسطیٰ کی سیاسیات پر گہر اثر و رسوخ تھا چنانچہ ملتان پر اقتدار قائم رکھنے میں ــ''التمش '' (٦٠٧ ھ /١٢١٠ء تا ٦٣٣ھ /١٢٣٥ء) نے آپ سے ہمیشہ مدد چاہی اور حضرت شیخ نے بھی اس کی دین داری اور رعایا پر وری کو ملاحظہ فرما کر اسے بڑی مدد دی ، ٦٤٤ھ /١٢٤٦ء میں منگولوں کے حملوں سے ملتان کو محفوظ رکھنے میں مؤثر کردار ادا کیا۔ آپ بابا گنج شکر کے خالہ زاد بھائی تھے۔ مشہور شاعر عراقی آپ کا داماد تھا۔ والی سندھ اور ملتان ناصر الدین قباچہ کو آپ سے بہت عقیدت تھی۔

 

وصال شریف

آپ کی وفات ِحسرت آیات ٧ صفر ٦٦١ ھ/٢١ دسمبر ١٢٦١ء کو ہوئی۔ آپ کا مزار شریف قلعہ محمد بن قاسم کے آخر میں مرجع خلائق ہے، مزار کی عمارت پر کاشی کا کام قابل دید ہے اور سینکڑوں اشعار یاد رکھنے کے لائق ہیں، مزار کا احاطہ ہر قسم کی خرافات سے پاک ہے ۔ عرس کے موقع پر علماء کرام کی تقاریر خلق خدا کی ہدایت کاسامان بنتی ہیں، اندرون سندھ سے مریدین اور معتقدین کے قافلے پا پیادہ حاضر ہوتے ہیں۔

آپ کا وصال ٦٦١ھ میں اٹھاسی سال کی عمر میں ہوا۔ حضرت خواجہ غریب نواز ٦٦٦ھ حضرت قطب الاقطاب ٦٣٣ھ حضرت بابا صاحب ٦٦٦ھ اور حضرت مخدوم صاحب ٦٦٦ھ میں وصال پا گئے، یہ عہد کتنا مبارک عہد تھا۔
 

 

 
(ماخوذ ''دائرہ معارف اسلامیہ '' جلد ٥، صفحہ ٩٤، ٩٥۔۔۔۔۔۔ ''نزہة الخواطر'' جلد ١ صفحہ ١٢٠، ١٢١ ۔۔۔۔۔۔ ''تذکرہ اولیائے سندھ '' صفحہ ١٠٩ تا ١١١)